Total Pageviews

Monday, 28 June 2021

دماغ کو ہر عمر میں جوان رکھنے میں مدد دینے والی آسان عادات

 

 جون 29, 2021


یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جسم چاہے جتنا بھی مضبوط ہو اگر دماغی طور پر کمزور ہو تو دنیا میں آگے بڑھنے یا روشن مستقبل کا تصور تک ممکن نہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ لوگ جسمانی صحت پر تو توجہ دیتے ہیں مگر دماغی نشوونما کو نظرانداز کردیتے ہیں۔


درحقیقت دماغ ہمارے جسم کا ایسا حصہ ہے جس کو عمر بڑھنے سے آنے والی تنزلی سے تحفظ دینے میں کبھی تاخیر نہیں ہوتی بلکہ آپ کسی بھی عمر میں چند عادات یا چیزوں کو اپنا کر ذہنی طور پر جوان رہ سکتے ہیں۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ دماغ اتنا بوڑھا ہوچکا ہے کہ نئی چیزیں نہیں سیکھ سکتا بلکہ دماغٰ تنزلی سے بچنا ممکن نہیں تو جان لیں دماغی عصبی خلیات اس حصے میں مسلسل بنتے رہتے ہیں جو یادوں کے تجزیے کا کام کرتے ہیں اور یہ عمل 90 سال کی عمر کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔




کینیڈا کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ دماغ کو مضبوط بنانے والی عادات کو روزمرہ کا معمول بنانا بڑھاپے اور امراض کے خلاف زیادہ مزاحمت میں مدد دیتا ہے۔ایسی ہی چند آسان سی عادات کے بارے میں جانیں جو دماغ کو جسمانی عمر میں اضافے کے باوجود بوڑھا نہیں ہونے دیتیں۔


طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ درمیانی عمر میں روزانہ 10 ہزار یا اس سے زائد قدم چلتے ہیں، ان کا دماغ ہم عمر ساتھیوں کے مقابلے میں اوسطاً 2.2 سال زیادہ جوان ہوتا ہے۔ مزید براں 2018 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر کے ساتھ فٹنس برقرار رکھنا درمیانی عمر یا بڑھاپے میں ڈپریشن سے بچانے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسمانی سرگرمیاں ورم کو کم کرکے ایسے کیمیکلز کے اخراج کے عمل کو متحرک کرتی ہیں جو دماغی خلیات اور دماغی شریانوں کی نشوونما کو حرکت مین لاتے ہیں۔ جسمانی سرگرمیاں ذہنی تناﺅ اور نیند کو بھی بہتر کرتی ہیں جس سے بھی دماغ کو صحت مند رکھنے میں مدد ملتی ہے۔


 *سبز سبزیاں* 

طبی جریدے نیورولوجی میں شائع ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ کم از کم ایک بار سبز سبزیاں کھاتے ہیں وہ ایسے افراد جو کبھی کبھار ان سبزیوں کو کھاتے ہیں ان سے، دماغی طور پر 11 سال زیادہ جوان ہوتے ہیں۔ محققین کا ماننا ہے کہ پالک اور ساگ وغیرہ میں موجود ایک جز لیوٹین اس کی وجہ ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل ایک اور تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ لیوٹین دماغ کے گرے میٹر کی شرح بڑھانے میں مدد دیتا ہے، گرے میٹر کا تعلق یاداشت سے ہوتا ہے، آپ جتنا زیادہ سبز سبزیوں کی شکل میں لیوٹٰن کو جزوبدن بنائیں گے، طویل المعیاد بنیادوں پر دماغ کو اتنا ہی فائدہ حاصل ہوگا۔


 *دماغی آزمائش کے کھیل* 

اخبارات میں آنے والے کراس ورڈ یا معمے، شطرنج یا کسی بھی قسم کا دماغ کو متحرک کرنے والا کھیل لوگوں کی دماغی عمر کو 8 سال تک کم کرسکتی ہے، درحقیقت ایسے افراد کی مسائل حل کرنے کی ذہنی صلاحیت اپنے سے ایک دہائی چھوٹے افراد کے برابر ہوسکتی ہے۔


 *بلڈ پریشر کو کنٹرول کریں* 

ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم ہو کہ بلڈ پریشر بڑھنے کے نتیجے میں امراض قلب اور فالج کا خطرہ بھی بڑھتا ہے، مگر عمر کی چوتھی، 5 ویں یا چھٹی دہائی میں فشار خون کا شکار ہونا بعد کی زندگی میں ذہن کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔


 *نیند کی اہمیت کو سمجھیں* 

طبی ماہرین کے مطابق اگر آپ چاہتے ہیں کہ عمر کے ساتھ بھی دماغی کارکردگی برقرار رہے تو اچھی نیند کو ترجیح بنائیں۔ طبی تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا کہ اچھی اور گہری نیند ایسے ہارمونز کی نشوونما کے لیے ضروری ہے جو صحت مند دماغی عمل جیسے یاداشت اور ہوشیاری وغیرہ کو تنزلی سے بچاتے ہیں۔ ہمارا دماغ مختلف نقصان دہ اجزا جیسے امینو ایسڈ، بیٹا ایمیلوئیڈ کی صفائی کا کام نیند کے دوران کرتا ہے، اگر نیند کا معیار ناقص ہو تو اس کچرے کی صفائی نہیں ہوتی اور وہ جمع ہونے لگتا ہے۔ بیٹا ایمیلوئیڈ الزائمر کا باعث بننے والا اہم ترین عنصر ہے۔


جنک فوڈ سے گریز

اپنے پیٹ کو فاسٹ یا جنک فوڈ سے بھرنا دماغ میں مدافعتی خلیات کو متحرک کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں کم درجے کے ورم کا سامنا ہوسکتا ہے جو الزائمر امراض کا ایک اہم سبب ثابت ہوتا ہے۔ 2015 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جنک یا پراسسیس غذاﺅں کا استعمال دماغی ٹشوز کا حجم گھٹاتا ہے اور ڈیمینشیا یا دماغی تنزلی کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر آپ زندگی بھر فاسٹ فوڈ ہی کھاتے رہے ہیں تو اب بھی صحت بخش غذا کو اپنالینا دماغی تنزلی کا خطرہ کم کرنے کے لیے کافی ثابت ہوتا ہے۔


اچھے دوست بھی دماغ کے لیے فائدہ مند

ہارورڈ میڈیکل اسکول کے مطابق جذباتی سپورٹ دماغی کے ایسے مخصوص حصوں میں تحرک پیدا کرتی ہے جو ایسے مرکب یا مالیکیول بنانے میں مدد دیتے ہیں جو دماغی خلیات کی مرمت کے لیے انتہائی ضروری ہوتا ہے جبکہ وہ نئے کنکشن بھی بناتے ہیں۔ سماجی طور پر الگ تھلگ ہوجانے کے حوالے سے 2017 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں اس مرکب کی سطح میں کمی آتی ہے اور الزائمر امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔ محققین کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ سماجی روابط میں کمی آتی ہے تو یہ ضروری ہے کہ جو آپ کے دوست ہیں، ان کے ساتھ تعلق کو زیادہ مضبوط بنائیں۔


 *بیریز کو کھانا عادت بنائیں* 

اسٹرابیری، بلیو بیری، شہتوت یا کسی بھی قسم کی بیری دماغی صحت کے لیے بہترین ثابت ہوتی ہے، اس کی وجہ ان میں ایسے اینٹی آکسائیڈنٹس کی موجودگی ہے جو تکسیدی تناﺅ کے خلاف لڑتے ہیں۔ تکسیدی تناﺅ دماغ کو تحفظ دینے والے اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کی ایک قسم ڈی ایچ اے کی سطح میں کمی لاتا ہے۔ ہفتے میں چند بار کچھ مقدار میں بیریز کو کھانا ڈی ایچ اے کی سطح کو تحفظ فراہم کے دماغی افعال درست رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک ہفتے میں 3 یا 4 بار اسٹرابیری کھا کر یاداشت کی کمزوری کا خطرہ ڈھائی سال تک کم کیا جاسکتا ہے۔


 *مراقبہ کرنا* 

ایک تحقیق میں 50 سال کی عمر میں مراقبہ کرنے والے افراد کا جائزہ لیا گیا تو دریافت ہوا کہ ایسے افراد کے دماغ اپنی عمر کے افراد کے مقابلے میں اوسطاً ساڑھے 7 سال جوان ہوتے ہیں۔ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ 50 سال کی عمر کے بعد ہر گزرتے سال کے ساتھ مراقبے کی عادت دماغی عمر میں ایک مہینہ 22 دن کی کمی لاتی ہے۔


 *مچھلی سے لطف اندوز ہوں* 

اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی قسم ڈی ایچ اے دماغی افعال کو معمول پر رکھنے اور موثر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتی ہے، یہ فیٹی ایسڈز ہمارا جسم خود بنانے سے قاصر ہوتا ہے تو اسے غذا سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ مچھلی کا گوشت خصوصاً زیادہ چربی والی مچھلیوں میں ڈی ایچ اے پایا جاتا ہے۔ ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہفتے میں ایک بار مچھلی کھانا سوچنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے اور یہ ان افراد کے لیے بھی فائدہ مند ہے جن میں الزائمر امراض کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔


 *ذیابیطس سے بچیں* 

پری ڈائیبیٹس اور ذیابیطس کے شکار افراد کو طویل المعیاد یاداشت اور مسائل حل کرنے کی صلاحیتوں میں تنزلی کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر مریض بلڈ شوگر لیول کو معمول پر رکھیں یا پری ڈائیبیٹس کے شکار افراد ذیایبطس کے شکار ہونے کے عمل کو سست کردیں تو ان کی دماغی صحت بھی زیادہ متاثر نہیں ہوتی۔


 *گریاں کھائیں* 

گریوں کو دماغی غذا سمجھا جاتا ہے خصوصاً اخروٹ میں صحت بخش اومیگا تھری فیٹی ایسڈ الفا لینولینک ایسڈ موجود ہوتے ہیں جو جسم میں جاکر اومیگا تھری ڈی ایچ اے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ڈی ایچ اے کی اہمیت کا ذکر اوپر ہوچکا ہے جو دماغی افعال کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ اخروٹ کھانا عادت بنانا تیزی سے فیصلہ کرنے، ذہنی لچک اور بہتر یاداشت میں بھی مدد دیتا ہے۔اگر اخروٹ پسند نہیں تو ایسے افراد جن کی عمریں 55 سال سے زائد ہے وہ روزانہ 10 گرام بادام یا مونگ پھیلی کھا کر ذہن کو تیز رکھ سکتے ہیں۔


 *تناﺅ میں کمی لائیں* 

ذہنی تناﺅ بذات خود تو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ یہ اس پر ہے کہ ہمارا جسم اس پر کیسے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق میں دریافت کیا کہ جو پرتناﺅ حالات میں منفی انداز سے ردعمل ظاہر کرتے ہیں، ان کی ذہنی توجہ اور دماغی صحت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ محققین نے دریافت کیا کہ ذہنی تناﺅ پر ضرورت سے زیادہ ردعمل ظاہر کرنے والے افراد ذہنی آزمائش کے امتحانات میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔


 *کچھ نیا سیکھیں* 

2014 کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 60 سال سے زائد عمر کے افراد کو ذہن مصروف رکھنے والے مشغلوں کو اپنالینا چاہیے جس سے یاداشت اور تجزیے کی رفتار میں بہتری آتی ہے۔ محققین کے خیال میں تخلیقی صلاحیت کو جلا دینے والے مشغلے دماغی دفاع کو مضبوط کرتے ہیں، ویسے ضروری نہیں کہ کچھ نیا سیکھنے کے لیے 60 سال کی عمر کا انتظار کیا جائے، ایک اور تحقیق کے مطابق کسی بھی عمر میں دماغی طور پر کچھ نیا سیکھنا ذہنی تحفظ کو بہتر کرتا ہے۔

Thursday, 29 April 2021

پلاسٹک کی ایجاد

 پلاسٹک کیسے ایجاد ہوا...؟


یہ ایک اتفاقی ایجاد تھی

بیلجین کیمیا داں " لیو بیک لینڈ" 1907ء میں لاکھ یا سُریش کا متبادل بنانے کے لیے تجربات کر رہا تھا۔ جس کو وہ مختلف پارسل کو بند کرنے کے لئے تیار کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے فامل ڈی ہائیڈ اور کول تار سے حاصل کردہ ایک تیزابی محلول فینائل کو ملا کر سریش بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو گیا۔ 


بہرحال اس نے اس محلول میں لکڑی کا بُرادہ اور ایسبیسٹاس ملا کر اسے ایک کڑاھی میں ڈال کر پکایا تو ایک ایسا مادّہ تیار ہو گیا جو لچک دار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط اور حرارت برداشت کرنے والا بھی تھا۔ 


اس نے اپنی اس اتفاقی ایجاد کو ’’بیک لائٹ‘ ‘ کا نام دیا۔ وہ اسے ’’ہزاروں استعمالات والا مادّہ‘‘ کہا کرتا تھا۔ جلد ہی اس مادّے کا استعمال عام ہو گیا اور اس میں بہتری سے بہتری کے لئے تجربات ہونے شروع ہوگئے ۔ 


جو چیزیں پہلے لکڑی، ہاتھی دانت، سنگِ مرمر سے بنائی جاتی تھیں اور عام لوگ انہیں خرید نہیں سکتے تھے اب اس مادّے سے تیار کی جانے لگیں۔ 


اس حیرت انگیز ایجاد نے ہماری زندگیوں کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ اب آپ کو فرنیچر' کھلونوں 'جہازوں' گاڑیوں' دفاتر' گھروں' الیکٹرونکس اشیاء وغیرہ وغیرہ ہرجگہ پلاسٹک کا استعمال باکثرت نظر آئے گا۔


بہرحال پلاسٹک 1907ء میں اتفاقی طور پر ایجاد ہوا تھا۔ اور یہ بھی ا للہ کا ہی فضل ہے ۔جو اس نے حضرت انسان پر فرمایا ہے۔ بس اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توقیق عطاء فرمائے...

Wednesday, 7 April 2021

لڑکی کو رشتہ کے انتخاب کا حق اور شادی کے بعد میکہ سے اس کا تعلق

 لڑکی کو رشتہ کے انتخاب کا حق اور شادی کے بعد میکہ سے اس کا تعلق

 حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(ترجمان  و سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) 

        اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں ایک اہم ترین نعمت اولاد ہے، اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں، اگر بچوں کی پیدائش کے وقت ان کی جسمانی کیفیت اور قُویٰ کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے ان کی پرورش کوئی آسان بات نہیں ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے دل میں ان کے لئے محبت کا اتھاہ خزانہ رکھ دیا ہے، وہ خوبصورت ہو یا بد صورت ، خوش اخلاق ہو یا بداخلاق، یہاں تک کہ والدین کا فرمانبردار ہو یا نافرمان ، ماں باپ ان سے محبت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، یہی محبت ان کی پرورش وپرداخت کا ذریعہ بنتی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے کہ جو زیادہ کمزور ہوتا ہے، اس کی طرف والدین کی توجہ بڑھ جاتی ہے، وہ صحت مند کے مقابلہ بیمار اور جوانی کی دہلیز پر پہنچی ہوئی اولاد کے مقابلہ کم عمر، کم سِن اور کم شعور بچوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، اسی اصول پر بیٹوں کے مقابلہ بیٹیوں کے لئے بعض پہلوؤں سے ان کی فکر بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔

    اولاد کی فطرت میں بھی یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ ماں باپ کے جتنے زیادہ محتاج ہوتے ہیں، اتنے ہی زیادہ اپنے والدین سے لگے چمٹے رہتے ہیں، شیر خوار بچہ غذا کھانے والے بچوں کے مقابلہ اور غذا لینے والے بچوں کے مقابلہ اور بڑے لڑکے اور لڑکیاں نسبتاََ والدین کی دوری کو گوارا کر لیتے ہیں، یہی حال لڑکوں اور لڑکیوں کا ہے، لڑکوں پر والدین کی دوری اتنی شاق نہیں گزرتی، جتنی لڑکیوں پر ؛ اسی لئے عام طور پر لڑکیوں میں اپنے ماں باپ سے تعلق، ان کی خدمت کا جذبہ اور ان کے لئے ایثار ومحبت کسی قدر زیادہ ہوتی ہے، اور شادی کے بعد تو اس سلسلہ میں کافی فرق آجاتا ہے، بیٹوں کی توجہ بیوی اور بچوں کی طرف بڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات والدین کی طرف کم ہو جاتی ہے، بیٹی اپنی سسرال میں اگرچہ بے بس ہوتی ہے؛ لیکن والدین کی محبت اس کو ہمیشہ تڑپاتی اور بے قرار رکھتی ہے؛ اور وہ خود بھی اپنی مجبوری اور بے کسی کی وجہ سے ماں باپ کی زیادہ محبت اورتوجہ کی محتاج ہوتی ہیں؛ اسی لئے اسلام نے بہ مقابلہ بیٹوں کے بیٹیوں کی محبت کے ساتھ پرورش اور ان کے ساتھ حُسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے؛ بلکہ جو شخص محبت کے ساتھ اپنی بیٹی کی پرورش کرے اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح نہیں دے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جنت میں آپ کی رفاقت کی خوشخبری دی ہے۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۱۴۶)

    مگر جب سماج میں بگار آتا ہے تو عورتوں کے ساتھ خود اپنوں کی طرف سے بڑی زیادتی ہوتی ہے، یہ صورت حال آج بھی ہے اور پہلے بھی رہی ہے ، خود ہمارے ملک میں برادران وطن کا تصور تھا کہ عورت اپنی اصل کے اعتبار سے مرد کی ملکیت ہے، شادی سے پہلے وہ باپ کی ملکیت میں ہے اور باپ کو اختیار ہے کہ وہ جہاں اور جس سے چاہے اپنی بیٹی کی شادی کر دے، اور شادی کے بعد وہ شوہر کی ملکیت ہے؛ اسی لئے ان کے یہاں شادی کو’’ کنیا دان ‘‘کہا گیا ، وہ باپ اور شوہر کی ملکیت سے اپنی مرضی سے آزاد نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ ان کے یہاں طلاق کا تصور نہیں تھا، یہاں تک کہ ’’ ستی ‘‘ کی رسم قائم ہوئی، اسلام نے عورتوں کو عزت کا مقام دیا، ان کو قریب قریب مردوں کے برابر حقوق دئیے، والدین پر نہ صرف ان کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری رکھی؛ بلکہ مختلف مواقع پر فطری حالات کی رعایت کرتے ہوئے لڑکیوں کا زیادہ خیال رکھا۔

    مگر افسوس کہ آج مسلم معاشرہ میں بھی لڑکیوں کے ساتھ بڑی ظلم وزیادتی ہوتی ہے، ان میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں، جن کا اثرلڑکی کی پوری زندگی پر پڑتا ہے، ایک: رشتۂ نکاح میں لڑکیوں کی رضامندی اور خوشنودی کا لحاظ نہ کرنا، شرعاََ جیسے لڑکے کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا، اسی طرح لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا؛ بلکہ لڑکوں سے بڑھ کر لڑکیوں کی رضامندی کا لحاظ کرنا ضروری ہے، اگر رشتہ میں موافقت نہیں ہوئی تو لڑکا تو طلاق دے کر اپنا دامن چھڑا سکتا ہے، وہ جسمانی اعتبار سے بھی طاقتور اور کسب معاش کی جدوجہد کا اہل ہوتا ہے؛ لیکن لڑکی کے لئے شوہر سے علاحدگی حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا، وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہوتی ہے اور حفاظتی ضرورت نیز فطری عوارض کی وجہ سے کسب معاش کے میدان میں بھی مرد سے پیچھے ہوتی ہے؛ اس لئے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ رشتہ کے انتخاب میں اس کی پسند کا خیال رکھا جائے۔

     ایک لڑکی کا نکاح اس کے والد نے اس کی پسند کے خلاف کر دیا ، انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رشتہ کو رد فرمایا۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۲۱۰۱)اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ باپ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند بیٹی پر تھوپ دے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر والد نے لڑکی کی ناپسندیدگی کے باوجود اس کا رشتہ طئے کر دیا تو لڑکی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے، نہ یہ بے حیائی ہے اور نہ بغاوت اور نہ والد کی عدول حکمی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رشتہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طئے فرمایا تو حضرت فاطمہؓ کی مرضی معلوم کی، پھر یہ قدم اٹھایا؛ لیکن آج کل مزاج، معاشی صورت حال، معیار زندگی اور معیار تعلیم کا فرق کئے اور لڑکیوں سے ان کی مرضی معلوم کئے بغیر ان کا رشتہ طئے کر دیا جاتا ہے، یہ ظلم اور ایک غیر شرعی عمل ہے۔

    راقم الحروف کو بعض احباب کی خواہش پر دہلی میں ایک نکاح پڑھانے کا موقع ملا، عاقدین کا تعلق غالباََ میوات سے تھا، میں نے خطبہ دینے سے پہلے لڑکی کے والد کو قریب بلایا اور ان سے دریافت کیا :کیا آپ نے نکاح کی اجازت لے لی ہے؟ کہنے لگے: کیا مطلب؟ میں نے کہا: لڑکی سے اس رشتہ کے بارے میں پوچھ لیا ہے؟ کہنے لگے: میں اس کا باپ ہوں، میں اس سے پوچھوں گا اور اجازت لوں گا؟؟ ظاہر ہے اس طرح کی بات اس وقت پیش آتی ہے جب سماج میں اس طرح کا مزاج بنا ہوا ہو؛ اس لئے آج بھی دیہات اور قریہ جات میں بسنے والے بہت سے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے لوگ لڑکی سے نکاح کی پسند معلوم کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔

    اسی طرح اگر کسی لڑکی نے کسی خاص لڑکے سے نکاح کا رجحان ظاہر کر دیا تو اس کو بہت ہی بُرا سمجھا جاتا ہے، گھر میں قیامت آجاتی ہے، ہر آدمی اس لڑکی کو لعنت ملامت کرتا ہے اور ہر طرف سے اس پر طعن وتشنیع کے تیر برسنے لگتے ہیں، یہ غیر اسلامی اور جاہلانہ طرز فکر ہے، بعض خواتین نے کسی خاص مرد سے نکاح کا ارادہ کیا؛ مگر ان کے اولیاء رکاوٹ بننے لگے تو قرآن نے اس طرز عمل کو منع فرمایااور اولیاء کو صاف طور پر کہا گیا کہ انہیں اس میں رُکاوٹ بننے کا کوئی حق نہیںہے: فلا تعضلوھن أن ینکحن أزواجھن (بقرہ: ۲۳۲)متعدد صحابیات کے واقعات موجود ہیں کہ انھوں نے اپنی پسند سے اپنا نکاح کیا، خود ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کے نکاح میں ام المؤمنینؓ ہی نے پیش قدمی فرمائی تھی؛ اس لئے یہ ضرور ہے کہ نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان کو اپنے رشتہ کے سلسلہ میں اولیاء کے مشورہ کو خصوصی اہمیت دینی چاہئے؛ کیوں کہ عموماََ ان کا مشورہ محبت اور تجربہ پر مبنی ہوتا ہے، اور یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جو رشتے اولیاء کو اعتماد میں لئے بغیر کئے جاتے ہیں، اکثر ناکام ثابت ہوتے ہیں، ان میں عقل کے بجائے جذبات اور مصلحت کے بجائے خواہشات کا زور ہوتا ہے؛ لیکن بہر حال یہ بات ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ شریعت نے بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کو فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے اور ان کے اولیاء کو صرف مشورہ دینے کا۔

    جب کوئی رشتہ لڑکے یا لڑکی پر زبردستی تھوپ دیا جاتا ہے تو وہ اول دن سے ہی تلخیوں اور کڑواہٹوں کا شکار ہوتا ہے، اور نکاح کا جو اصل مقصد ہے: پُر سکون زندگی کا حصول : لتسکنوا الیھا (روم: ۲۱)وہی فوت ہو جاتا ہے، اس لئے اس سے بچنے کی ضرورت ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ تعلیم میں لڑکیاں لڑکوں پر سبقت حاصل کر رہی ہیں، اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر کامیابی کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت کر رہی ہیں، تو ہر گز یہ رویہ درست نہیں ہو سکتا کہ ان کو اپنی ذات کے معاملہ میں فیصلہ کرنے سے محروم کر دیا جائے۔

    دوسرا اہم مسئلہ جو بے حد سنگین ہے اور جس کی وجہ سے بعض اوقات خود کشی جیسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں، وہ ہے شادی کے بعد لڑکی کا اپنے میکہ سے تعلق ، یہ بات معاشرہ میں زبان زد ہو گئی ہے کہ جس گھر میں’’ ڈولی‘‘ جائے اس گھر سے ’’ڈولا ‘‘نکلے، یعنی لڑکی جب اپنے سسرال جائے تو وہ یہ سمجھ کر جائے کہ اسے پوری زندگی وہیں گزارنا ہے، یہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ لڑکیوں کو تیار کیا جائے کہ زندگی میں سردوگرم حالات آتے ہیں ، ان کو برداشت کر کے رشتہ نکاح کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، اس پس منظر میں لڑکیوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب سسرال تمہارا اپنا گھر ہے اور میکہ پرایا؛ لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ چاہے شوہر سے موافقت ہو یا نہ ہو، چاہے شوہر ظلم وزیادتی کا مرتکب ہو ؛ لیکن بہر حال رہنا اسی کے ساتھ ہے، جب ماں باپ اس طرح کی بات کہتے ہیں تو یہی بات لڑکی کے بھائیوں کے ذہن میں گھر کر جاتی ہے، اور بیٹی کا اپنے میکہ میں آنا بھاوجوں کے دل میں تو بہت ہی کھٹکنے لگتا ہے، وہ ان کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کرتی ہیں، جو کسی بِن بلائے مہمان کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے اپنے سسرال میں اس کا گزر نہ ہو سکے تو اس غریب پر قیامت آجاتی ہے؛ حالاں کہ ایسا صرف لڑکی کی بدمزاجی سے نہیں ہوتا ہے ، لڑکے اور ان کے گھر والوں کی بداخلاقی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ اس کو سسرال سے نکال دیا جاتا ہے، کبھی تو بچوں کا بوجھ بھی اس کے کاندھوں پر رکھ دیا جاتا ہے، اور کبھی حد درجہ شقاوت کا اظہار کرتے ہوئے بچے بھی اس کی گود سے چھین لئے جاتے ہیں، اگر ان حالات میں میکہ بھی اس کے لئے پرایا گھر بن جائے تو وہ اپنے آپ کو بالکل بے سہارا محسوس کرتی ہے، یہ ایک بے حد تکلیف دہ صورت حال ہے جو سماج میں پیش آتی ہے، اگر شوہر نے دوسری شادی کر لی تو شادی تو وہ  شریعت کا نام لے کر کرتا ہے؛ لیکن دوسری شادی کے بعد اسلام میں عدل وانصاف کے جو احکام دیے گئے ہیں، ان کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے، اگر شوہر نے یہ رویہ اختیار کیا، یا طلاق دے دی، یا خدا نخواستہ اس کا انتقال ہو گیا تب بھی بعض اوقات عورتیں اسی صورت حال سے دو چار ہوتی ہیں۔

    اگر چہ اس ظلم وزیادتی کے مختلف عوامل ہیں؛ لیکن ایک اہم سبب یہ تصور ہے کہ شادی ہو جانے کے بعد لڑکی کا اپنے میکہ میںکوئی حق نہیں ہے، وہ اس کے لئے پرایا گھر ہے، ایسی بے سہارا لڑکیاں جب کوئی جائے پناہ نہیںپاتیں، نہ والدین ان کو قبول کرنے کو تیار ہیں نہ سسرال والے، تو ان پر مختلف قسم کا رد عمل ہوتا ہے، بعض لڑکیاں ڈپریشن کا شکار ہو کر دماغی عارضہ مین مبتلا ہو جاتی ہیں، بعض خود کشی کر  لیتی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو چکی ہے، لڑکیوں کی خود کشی کے بہت سے واقعات اس طرح پیش آرہے ہیں، بعض اوقات کوئی راستہ نہ پا کر وہ گھر سے باہر نکل جاتی ہیں، اور مستقل طور پر غلط راستے پر پڑ جاتی ہیں اور بعض اوقات کسی غیر مسلم کے ساتھ اپنی شادی رچا لیتی ہیں، لوگ ایسی لڑکیوں کو لعنت ملامت کرتے ہیں؛ لیکن ان واقعات کے پیچھے جو حالات کار فرما ہیں، ان پر غور نہیں کرتے، اور جن لوگوں نے اس کا ارتکاب کیا ہے، ان کو تنبیہ نہیں کی جاتی۔

    بنیادی طورپر یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ لڑکی کا نکاح کے بعد بھی اپنے میکہ اور والدین سے تعلق باقی رہتا ہے اور جیسے والدین کی اَملاک میں بیٹے کا حق ہوتا ہے، بیٹیوں کا بھی حق ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری لمحات میں تین باتوں کی خاص طور پر نصیحت فرمائی، ایک: بیوہ عورت کے ساتھ حسن سلوک، دوسرے: یتیم بچوں کے ساتھ، تیسرے: نماز کا اہتمام، (شعب الایمان، عن انس حدیث نمبر: ۱۰۵۴۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے کسی یتیم یا بیوہ کی کفالت کی۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں جگہ دیں گے، اور جنت میں داخل فرما دیں گے، (المعجم الاوسط، حدیث نمبر: ۹۲۹۲) اگرچہ یہ ارشاد بیوہ اور یتیم کے بارے میں ہے؛ لیکن جس عورت کا شوہر اسے چھوڑ دے یا گھر سے بے گھر کر دے، اور اس سے پیدا ہونے والے بچوں سے آنکھیں موند لے وہ عورت بھی اپنی صورت حال کے اعتبار سے بیوہ ہی کے درجہ میں ہوتی ہے، اور ان بچوں کو بھی یتیموں کی سی ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے؛ اس لئے اُن کے ساتھ حُسن سلوک پر وہی اجر حاصل ہوگا، جس کا وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ حُسن سلوک پر کیا ہے، اور پھر بیٹی بہن کے ساتھ حُسن سلوک میں تو صِلہ رحمی کا پہلو بھی ہے، جس کی قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی بہت تاکید فرمائی گئی ہے۔

    باپ کے مال میں مقدار کے فرق کے ساتھ بیٹی کا بھی اسی طرح حق ہوتا ہے، جیسے بیٹوں کا ہوتا ہے؛ اسی لئے اس کے ترکہ سے جو رشتہ دار کسی صورت محروم نہیں ہو سکتے، وہ چھ ہیں، ان میں بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ۵؍ ۱۹۴) اگرچہ کہ ترکہ کی تقسیم میں ترکہ کے مطالبہ کا حق مورث کی موت کے بعد حاصل ہوتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کو محروم کرنے کی تدبیر کرے ، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، تو وہ شرعاََ گناہ گار ہوگا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے حصہ سے اس کو محروم کر دیں گے۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۷۰۳) اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی اپنی ضروریات سے بچی ہوئی دولت میں ایک حد تک اس کے ورثاء کا حق ہوتا ہے، جس میں بیٹی بھی شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر باپ کوئی ایسا قدم اٹھائے جس کی وجہ سے وہ حق سے محروم ہو جائے تو باپ گناہ گار ہوتا ہے۔

    فقہاء نے شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ شادی تک لڑکیوں کا نفقہ باپ پر واجب ہے ،اور چاہے لڑکی کسب معاش پر قادر ہو، اگر باپ کے اندر نفقہ ادا کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ بیٹی سے مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ خود کمائے، اگر خدانخواستہ وہ مطلّقہ ہو جائے اور شوہر چھوڑ دے تو جیسے پہلے اس پر اس لڑکی کی پرورش کی ذمہ داری تھی، اب دوبارہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہو جائے گی: واذا طلقت وانقضت عدتھا عادت نفقھا علی الأب (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰)

    اس لئے یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکی کا اپنے خاندان اور اپنے ماں باپ سے تعلق ختم ہو گیا، اب وہ اس گھر کے لئے بے گانہ اور پرائی ہوگئی؛ بلکہ جتنا حق اس میں بیٹوں کا ہے، مقدار کے فرق کے ساتھ اسی طرح بیٹیوں کا بھی حق ہے، نہ ماں باپ اس کو مشکل حالات میں میکہ آنے اور یہاں بسنے سے روک سکتے ہیں، نہ بھائی اور بھاوجیں ان کو ان کے حق سے محروم کر سکتے ہیں، اور مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ظلم و زیادتی سہتے ہوئے سسرال میں ہی اپنا وقت گزاریں!!!

Tuesday, 23 March 2021

مونگ پھلی کے فوائد

  مونگ پھلی (Peanuts) 


مونگ پھلی (Peanuts) اگرچہ خشک میوہ نہیں ہے اور اس کی درجہ بندی پھلی کے طور پر کی جاتی ہے لیکن اس کے غذائی اجزا خشک میوے سے متماثل ہیں.


 جن لوگوں کو مونگ پھلی سے الرجی نہیں ہے، انھیں دل کی صحت کے فوائد کے لیے زیادہ سے زیادہ مونگ پھلی کھانی چاہیے، جو دوسرے میووں کےمقابلے میں کم قیمت بھی ہے. اور مناسب قیمتوں پر سردیوں میں باآسانی دستیاب ہوتی ہے جو جسم پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ کچی مونگ پھلی کی بجائے ہمیشہ بھنی ہوئی مونگ پھلی کھائی جائے تاکہ اس کے بہتر فوائد حاصل ہو سکیں۔


💕 غذائی اجزاء و فوئد

مونگ پھلی بہت سے اہم غذائی عناصر سے بھرپور ہوتی ہے، جو انسانی جسم کے مدافعتی نظام کو بہتر کرتے ہیں۔ مونگ پھلی کا استعمال دل اور خون کی شریانوں کے عوارض، الزائمر اور سرطان سے بچانے میں مدد کرتی ہے اور بڑھاپے کے اثرات کو کم کرتی ہے۔


مونگ پھلی میں موجود 25 فیصد پروٹین انسانی جسم میں خلیوں کی تجدید میں مدد کرتا ہے. مونگ پھلی میں موجود متعدد غذائی عناصر جیسے فولک ایسڈ، تانبہ، نیاسن اور دیگر وٹامن انسانی صحت کیلئے فائد ہ مند ہیں. یہ عناصر دل اور شریانوں کا تحفظ کرتے ہیں اور نقصان دہ کولسٹرول کو کم کرتے ہیں جبکہ جرثوموں اور زہریلے مواد سے بھی محفوظ رکھتے ہیں. مونگ پھلی کا چھلکا اینٹی آکسیڈنٹس کا حامل ہوتا ہے. اس کے روغن میں پروٹین، اینٹی آکسیڈنٹس اور جسم کے لیے اہم معدنیاتی نمکیات ہوتے ہیں. مونگ پھلی میں ریشے کی بھی وافر مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ ریشہ وزن کم کرنے اور دمے سے تحفظ فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے. قدرت کا یہ انمول تحفہ اپنے اندر ٹرپٹوفان بھی رکھتا ہے، جو جسم میں سیروٹونن مادہ پیدا کرتا ہے. یہ مادہ انسان کو ڈپریشن اور اعصابی تناؤ کی حالت سے بچا کر مزاج کو نارمل رکھنے میں مدد کرتا ہے۔


 مزید فوائد

♡ مونگ پھلی دبلے اور کمزور افراد کے لئے مفید ہے.

♡ کینسر سے محفوظ رکھنے میں ہماری معاون ہے۔

♡ مونگ پھلی میں پروٹین، کیلشیم، وٹامن ای، وٹامن بی ون، B6 اور فاسفورس شامل ہوتا ہے.

♡ مونگ پھلی سے اعصاب کو تقویت ملتی ہے۔

♡ ذیابطیس ٹائپ ٹو میں مونگ پھلی کا استعمال مریض کو فائدہ دیتا ہے۔

♡ مونگ پھلی کے استعمال سے انسولین کی سطح برقرار رہنے میں مدد ملتی ہے.

♡ مونگ پھلی میں موجود فولاد خون کے نئے خلیے بنانے میں مددگار ہوتا ہے.

♡ ایکسرسائز کرنے والے اس سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

♡ مونگ پھلی میں موجود وٹامنز ہڈیوں اور دانتوں کو مضبوط کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔

♡ مونگ پھلی معدے اور پھیپھڑے کے لئے فائدہ مند ہے اور یہ دونوں اعضاء کو مضبوطی بخشتی ہے۔

♡ مونگ پھلی میں ایسے اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں جو غذائی لحاظ سے سیب، چقندر اور گاجر کے مقابلے میں وافر مقدار میں ہیں۔

♡ اگر آپ کے بال گر رہے ہیں تو مونگ پھلی کے استعمال سے ان میں کمی آ سکتی ہے.


🥜 احتیاط

♡ جسم میں خارش

جسم میں خارش ہونے صورت میں مونگ پھلی نہیں کھانا چاہئے اس سے خارش کے مرض میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔


♡ حاملہ خواتین

ڈاکٹر کے مشورے سے حاملہ خواتین مونگ پھلی کھانے کے بارے میں سوچیں کیونکہ اس سے الرجی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ اگر انہیں یہ خشک میوہ مرغوب ہے اور اسے کھانا چاہتی ہیں تو پہلے اپنے فیملی ڈاکٹر سے رائے لے لیں، اسی طرح کھانسی کی صورت میں مونگ پھلی کا استعمال بالکل نہ کریں کیونکہ ایک تیل سے بھرپور میوہ ہے جو کھانسی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔


♡ معدے کے مریض

یرقان اور معدے کے مرض میں مبتلا افراد بھی مونگ پھلی کے زائد استعمال سے دور رہیں تاہم کم کھانے سے انہیں کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا۔


♡ سانس کے مریض

سانس کے مرض میں مبتلا یا دمہ کے مریضوں کو بھی مونگ پھلی کا استعمال فائدے کے بجائے نقصان میں مبتلا کرسکتا ہے۔


♡ معدے میں تیزابیت

اسی طرح جن افراد کے معدے میں تیزابیت ہو ان کو بھی مونگ پھلی سے دور رہنا چاہئے کیونکہ خشک میوہ جات گرم تاثر رکھتا ہے اس لیے مونگ پھلی بھی تیزابیت یا معدے میں گرمی کے مرض میں اضافے کا سبب بنتی ہے تاہم صحت مند معدے کے لیے نقصان دہ نہیں ہے...

Saturday, 13 March 2021

निवड श्रेणी साठी आवश्यक कागदपत्रे...

 *निवड श्रेणी साठी आवश्यक कागदपत्रे....*

     एकाच पदावर 24 वर्षे सेवा झालेल्या कर्मचाऱ्यांनी निवड श्रेणी प्रस्तावासाठी खालील कागदपत्रे एका फाईल मध्ये लावून फाईल तयार करावी*.....

1) *निवड श्रेणी प्रस्ताव अर्ज*.

2) *आडव्या प्रपत्रात माहिती*.

3) *नोकरीला लागते वेळी असलेली शैक्षणिक पात्रता प्रमाणपत्र. जसे आपण नोकरीला लागते वेळी दहावी किंवा बारावीत असाल तर त्या वर्गाची मार्कशीट किंवा बोर्ड सर्टिफिकेट*. *सोबतच D.ed मार्क शीट*. 

4) *प्रथम नियुक्ती आदेश*.

5) *21 दिवसाचे सेवांतर्गत प्रशिक्षण पूर्ण झाल्याचे प्रमाणपत्र*.

6) *15 दिवसाचे निवडश्रेणी प्रशिक्षण पूर्ण झाल्याचे प्रमाणपत्र,नसल्यास प्रशिक्षण पूर्ण करण्यासाठी अर्ज*.

7) *जात वैधता प्रमाणपत्र*.

8) *तीन वर्षाचे गोपनीय अहवाल* (*मूळ प्रती*). *ज्या वर्षी सेवेची 24 वर्षे पूर्ण होत आहेत त्या वर्षीच्या अगोदरील तीन वर्षाचे गोपनीय अहवाल*.

9) *शैक्षणिक अहर्ता वाढ झाल्याचे प्रमाणपत्र. नोकरीला लागताना दहावी किंवा बारावी म्हणून सेवेत लागल्यानंतर पदवी किंवा पदव्युत्तर पदवी पूर्ण केल्याचे प्रमाणपत्र लावावे*.

10) *एम.एस.सी.आय.टी पूर्ण झाल्याचे प्रमाणपत्र* (ज्यांच्याजवळ असतील त्यांनी लावाव्यात 

Thursday, 28 January 2021

آم کھانے کے بیشمار فوائد

 آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے اس کا صرف ذائقہ ہی لاجواب نہیں ہوتا بلکہ آم کھانے کے بیشمار فوائد ہیں ۔

جلد بوڑھا ہونے سے بچاتا ہے
طبی ماہرین کے مطابق آم وٹامن ای سے بھرپور ہے جس کے استعمال سے انسان صحت مند اور شاداب رہتا ہے جب کہ یہ وٹامن جلد کو ترو تازگی فراہم کرتے ہیںاور چہرے پر دانوں اور کیل مہاسوں سے بچاتے ہیں۔ آم میں شامل وٹامن سی خون میں کولیسٹرول کی مقدار کم کرتا ہے جب کہ اس میں موجود وٹامن اے بینائی کو کمزور ہونے سے بچاتا ہے اور اس کے علاوہ یہ پھل سورج کی تیز شعاعوں سے بھی آنکھوں کو خراب ہونے سے بچاتا ہے۔

 دمے سے محفوظ رکھتا ہے:
ماہرین کے مطابق آم میں موجود اجزا انسانی جسم کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں اور جو لوگ آم کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان کے دمے کے مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔

کینسر سے بچاؤ  میں معاون:
طبی ماہرین کے مطابق آم میں شامل اینٹی آکسیڈنٹ آنتوں اور خون کے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے جب کہ گلے کے غدود کے کینسر کے خلاف بھی یہ مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق کولون یا بڑی آنت کے سرطان کے خلاف آم ایک اہم مدافعانہ ہتھیار ثابت ہوا ہے اورآم کھانے کے شوقین لوگوں میں اس سرطان کی شرح نمایاں طور پر کم دیکھی گئی ہے۔

ہڈیوں کی صحت کیلیے مفید:
ماہرین کا کہنا ہے کہ آم کا استعمال ہڈیوں کی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے اس میں موجود کیلشیم  ہڈیوں کو مضبوط رکھتا ہے اور آم کھانے کے شوقین افراد میں وقت سے پہلے ہڈیوں کی کمزوری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔

ذیابطیس میں بھی کارآمد:
تحقیق کے مطابق آم میں موجود وٹامن اے ،بی،سی اور فائبر کے علاوہ 20 دیگر اجزا پائے جاتے ہیں جو خون کی گردش میں شکر کے جذب ہونے کے عمل کو کم کرتے ہیں۔ امریکی ماہرین کے مطابق آم میں موجود قدرتی مٹھاس کی مناسب مقدار شوگر کے مریضوں کے لئے نقصان دہ نہیں ہوتی۔

نظام ہاضمہ کیلیے ضروری:
آم میں موجود ریشے جنہیں فائبر بھی کہا جاتا ہےآنتوں کی صفائی کرتے ہیں اور نظام ہضم کو درست رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

دل کی صحت کیلیے مفید:
ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کے امراض میں مبتلا افراد کے لیے آم ایک بہترین پھل ہے اس میں موجود  پوٹاشیم ،فائبر اور وٹامن دل کی صحت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں جب کہ اس میں موجود بڑی تعداد میں پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

انفیکشن کے خلاف مؤثر دوا:
ماہرین صحت کے مطابق تمام بیکٹیریا کا حملہ اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ جسم کی خارجی تہہ بنانے والی بافتیں کمزور ہوجاتی ہیں تاہم آم کے موسم میں اس کا آزادانہ استعمال بافتوں کی اس کمزوری کو دور کرتا ہے چنانچہ بیکٹیریا کا جسم میں داخلہ ممکن نہیں رہتا اس کیفیت کے بعد پے در پے انفیکشن مثلاً نزلہ‘ زکام اور ناک کی سوزش رونما نہیں ہوئی۔ اس تحفظ کی وجہ آم میں پائی جانے والی وٹامن اے کی وافر مقدار ہے...

Wednesday, 13 January 2021

پہلے نکاح یا پہلے کیرئیر؟


         ہائیر ایجوکیشن کے نام پر لڑکیوں سے دشمنی!!!!!!!!!!! 

ؒلڑکیوں کی ہایئر ایجوکیشن کی پرزور وکالت کرنے والے دانشوروں سے آج ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیاں سوال کررہی ہیں کہ آج ہماری عمریں تیس سال سے تجاوز کرچکی ہیں، اب ہم سے شادی کون کرے گا کیونکہ جو بھی رشتہ آتا ہے انہیں بیس بائیس سال کی لڑکی چاہئے۔ کل تک جہیز سب سے بڑی رکاوٹ تھی، لیکن اب میچنگ سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔پہلے لڑکی اگر خوبصورت نہ بھی ہو خوب جہیز کی رشوت دے کر لڑکے کے ماں باپ کا منہ بند کرنا آسان تھا، لیکن اب ہائیر ایجوکیشن کی وجہ سے لڑکیوں کی عمر کی میچنگ، ان کی ڈگری کی میچنگ اور پھر ان کی تنخواہ کی میچنگ ملنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ہمارے نام نہاد تعلیم یافتہ کچھ حضرات نے اس موضوع پر ہمارا ویڈیو سن کر اعتراض کیا کہ ”آپ ایک ڈاکٹر ہوتے ہوے بھی مولویوں اور ملّاؤں جیسی فرسودہ باتیں کررہے ہیں، لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم سے ”قوم کی ترقی“ ہے۔ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی رٹ لگانے والوں سے پہلے چند سوالات ہیں جن کاجواب ان کے پاس کوئی نہیں۔ 
ا۔ ایجوکیشن کا مقصد کیا ہے؟   ۲۔ قوم سے اِن کی کیا مراد ہے؟  ۳۔ قوم کی ترقی کی ان کے پاس کیا تعریف ہے؟ ۴۔ اسلام چاہتا ہے کہ پہلے نکاح ہو بعد میں کیرئیر، یہ صحیح ہے یا غلط؟
قوم سے مراد  کیا انڈین پاکستانی یا عرب معاشرہ ہے؟  ہمارے پاس قوم سے مراد صرف ”قومِ رسولِ ہاشمی“ ہے۔اس قوم میں اور دوسری قوموں میں یہی فرق ہے کہ اس قوم کے لیڈر محمد الرسول اللہ ﷺ نے زندگی کا ایک مکمل راستہ، ایک مکمل دستور دیا ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جس نے زندگی گزارنے کا مکمل دستو ر دیا ہو۔ وہ لوگ ہماری قوم کے لوگ ہی نہیں جو مسلمان تو کہلوانا چاہتے ہیں لیکن زندگی گزارنے کے اصول کبھی امریکہ سے، کبھی یہودیوں سے اور کبھی مشرکوں سے لے کر کسی نہ کسی طرح جائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
قوم کی ترقی سے مراد ہمارے آج کے دانشوروں کے ذہن میں یہ ہے کہ لڑکیاں زیادہ سے زیادہ ڈگریاں حاصل کریں، نوکریاں کریں، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں، پھر ان کے رشتے اچھے گھرانوں سے آئیں، لڑکیاں امریکہ یا یورپ جاکر ان کے معاشرے میں سیٹ ہوجائیں۔ لیکن ہمارے نزدیک قوم کی ترقی صرف یہ ہے کہ جس قوم سے آپ کا تعلق ہے، آپ اس قوم کے لیڈر کو اپنا مکمل لیڈر تسلیم کرلیں، اور ان کے دیئے ہوئے دستور  کو پوری دنیا کا دستوربنادیں۔ جو فوج میدانِ جنگ میں اپنے کمانڈر کی 100% تابعداری کرتی ہے، جنگ وہی جیتتی ہے۔ جو فوج کمانڈر کے فیصلوں کو اپنی دانشوری کے تابع کرتی ہے وہ فوج بری طرح ذلت اور شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ آج مسلمان قوم کی ساری دنیا میں ذلت اور ہر قدم پر شکست کا سبب یہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے لیڈر نے جب حکم دے دیا کہ بالغ ہونے کے بعد کفو مل جانے پر پہلے نکاح کرو۔ ایجوکیشن ضروری ہے، کیرئیر بھی ضروری ہے اور پروفیشنلزم بھی ضروری ہے۔ لیکن اسلام نے اس کی Priority  طئے کردی ہے کہ پہلے نکاح بعد میں سب کچھ۔ لیکن ہمارے دو کوڑی کے دانشوروں کا کہنا ہے کہ لڑکیاں پہلے گریجویشن کریں، پھر پوسٹ گریجویشن، پھر کوئی میچنگ کا لڑکا ملنے تک نوکری کریں  اور تجربہ حاصل کریں۔ اگر کوئی ان سے اختلاف کرے تو اس کو بڑی حقارت سے مولوی یا ملّا سے تعبیر کریں گے۔ یہ نادان یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ یہ کس کی مخالفت کررہے ہیں۔ یہ مولویوں کی نہیں بلکہ اس قوم کے سردار محمد الرسول اللہ ﷺ کی راست مخالفت کررہے ہیں۔ کسی بھی رشتہ لگانے والے آفس میں جایئے، دیکھ لیجئے کہ شادی کی منتظر لڑکیوں کی اکثریت تیس سال کے آس پاس ہیں۔ اور ان میں زیادہ تو وہی لڑکیاں ہیں جن کے ذہنوں میں اعلیٰ تعلیم کا جنون بھردیا گیاتھا۔ 
تیسرا سوال یہ ہے کہ ایجوکیشن، ایجوکیشن کی رٹ لگانے والوں کے پاس ایجوکیشن کا مقصد کیا ہے، اس کی صحیح تعریف کیا ہے؟تھیوریٹکلی اس پر تو ہر دانشور ایک طویل تقریر کرسکتا ہے، لیکن پراکٹیکلی دیکھ لیجئے، ایجوکیشن دلاتے ہوئے ماں باپ کے ذہن میں جو مقصد ان کی چھٹی حِس میں چھپا ہوتا ہے وہ  یہ ہے کہ لڑکی کو مرد پر منحصر نہ ہونا پڑے، غلامی نہ کرنی پڑے، اگر شوہر مرجائے، بھاگ جائے، دوسری شادی کرلے یا چھوڑ دے تو لڑکی کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ جب آغاز ہی شک، سرکشی اور بغاوت کی بنیاد پر ہو تو انجام بھی ویساہی  ہوتا ہے۔ پہلی اینٹ اگر ٹیڑھی رکھ دی جائے تو دیوار چاہے آسمان تک اٹھادی جائے، وہ دیوار ٹیڑھی ہی جائیگی۔ ایک کامیاب شادی شدہ زندگی کا راز یہ ہے کہ بیوی پہلے لونڈی بن جائے پھر شوہر غلام بن جاتا ہے۔ یہ ایک Reciprocal عمل ہے۔ لیکن لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم انہیں پہلے جھکنے نہیں دیتی۔  اعلیٰ تعلیم کے بعد اپنی Ego کو دفن کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 
میاں بیوی کے کامیاب رشتے کی بنیادیں چار ستونوں پر کھڑی ہیں۔ پہلا رشتہ یہ ہے کہ تعلق میاں بیوی کا ہو یعنی ایک دوسرے کے مکمل حقوق اداکررہے ہوں۔ دوسرا دوستانہ رشتہ ہے۔ یعنی وہ  ایک دوسرے کے ساتھ مکمل دوست کی طرح رہتے ہوں۔ تیسرا رشتہ یہ ہے کہ وہ ایک مکمل محبوب اور محبوبہ کی طرح رہتے ہوں۔ پہلے دو تعلقات تو بہرحال دیکھنے میں آتے ہیں لیکن تیسرا رشتہ یعنی محبوب اور محبوبہ کا رشتہ جو پور ی زندگی کی جان ہے، یہ اس وقت ممکن ہے جب لڑکی کی عمر بیس بائیس  یا زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک ہے۔ جب جذبات کلی کی طرح علی الصباح کھلتے ہیں اور مہک آتی ہے۔ دھوپ نکل جانے کے بعدپھول کھلتا تو ہ ہے لیکن بڑھتی ہوئی دھوپ کی گرمی اس کی خوشبو کا ختم کردیتی ہے۔ جب لڑکیاں جوانی کی اصل عمر سے نکل جائیں، تو پھر انہیں خوشی کے رشتے نہیں آتے، مجبوریوں کے رشتے آتے ہیں۔ کبھی طلاق شدہ مردوں کے کبھی کوئی نہ کوئی خامی والے مردوں کے۔ اور جو فِٹ مردوں کے رشتے آتے ہیں ان کا Rate بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مہذّب گھرانوں کی لڑکیاں کسی نہ کسی طرح سمجھوتہ کرلیتی ہیں، لیکن جن دماغوں میں فیمنزم اور لبرٹی آف وومن کا زہر اتارا جاچکا ہے وہ اپنے سے بہتر تعلیم یافتہ  اور کمائی والے کو دیکھتی ہیں جو ان کے ساتھ کام کرتا ہے چاہے وہ کوئی سید یا خان ہو، چاہے شرما یا ریڈی ہو چاہے سنگھ یا چٹرجی ہو۔ اس کو Cultural Assimiliation کہتے ہیں۔ اس میں غالب کلچر، کمزور کلچر کو اپنے اندر ضم کرلیتا ہے۔ مغلوں کے طاقتور کلچر میں راجبوت شہزادیاں ضم ہوجاتی تھیں۔ انگریزوں کے زمانے میں نوابوں کے کلچرکو  انگریز عورتیں اپنالیتیں اورنوابوں رئیسوں سے شادیاں کرلیتی تھیں۔ اب ہندوستان میں مسلمان لڑکیاں جس تیزی کے ساتھ اس انجذاب میں مبتلا ہیں، یہ سلسلہ آئندہ پانچ دس سال میں خطرے کے نشان سے اس قدر اوپر اٹھ چکا ہوگا کہ آج جو لوگ غیرت مندی سے سوچ کر رنجیدہ ہیں، رفتہ رفتہ یہ بھی پتھر ضمیر کے ہوجائیں گے۔ 
اب بھی وقت ہے۔ جو کچھ حالات آج ہیں، فاشسٹوں کی ایک مکمل منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلامی پرسنل لا اور اسلامی تاریخ اور تہذیب کے سامنے ان کے دیوی دیوتاؤں کے بچکانہ قصے ٹِک نہیں سکتے،اس لئے وہ  اپنی قوم کے تعلیم یافتہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اسلام سے بدظن رکھنے اسلام کے خلاف مستقل پروپیگنڈے اور تشدّد پر اتر آئے ہیں۔ اگر قومِ رسولِ ہاشمی آج بھی اپنے قائد کے سیاسی، اخلاقی، معاشرتی اور اکنامک اصولوں پر اڑ جائے تو پوری غیرقوم اسلام میں جذب ہوسکتی ہے، کوئی اس سے روک نہیں سکتا۔ لیکن ہم ایک قدرتی تنزّل کا شکار ہیں۔ پہاڑ سے تیزی سے نیچے کی طرف آتے ہوئے وزنی پتھر کی طرح ہم لوگ نیچے جارہے ہیں، یہ کیسے رکے گا اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہم میلادالبنی کے  شاندار جلوس نکال سکتے ہیں، ہم فرانس کے صدر کے پوسٹر پیروں میں روند سکتے ہیں، ہم پرسنل لا میں دوسروں کی دخل اندازی روکنے گولیاں کھانے تیار ہیں لیکن نکاح کا حکم خود اپنے خاندان پر نافذ کرنے تیار نہیں۔ یہ حکم نافذ ہوجائے تو نہ صرف لاکھوں مسلمان ہر سال غربت و افلاس سے باہر نکل سکتے ہیں بلکہ لاکھوں غیرقوم کی لڑکیوں کا اسلام میں داخلہ ممکن ہے، لیکن خود قومِ رسولِ ہاشمی آج دوسروں کو اس قوم  میں داخل ہونے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 
لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کے نام پر جو کورسس ان سے کروائے جاتے ہیں، ان کا بھی کوئی مقصد نہیں ہوتا سوائے اس کے بس اچھا رشتہ آئے، بچی امریکہ یا دوبئی چلی جائے توکوئی سی بھی کلرک کی نوکری مل جائے۔کیا یہ حماقت نہیں ہے کہ لڑکیوں کو وہ کورس کروانا جو صرف مردوں کو سوٹ کرتے ہیں؟  کوئی لڑکی سیول انجینئرنگ، تو کوئی آرکٹکٹچر، کوئی  اگریکلچر  تو کوئی وِٹرنری کررہی ہے۔  ایسے کورسس میں ڈگری دلا کر ماں باپ حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟اگر کسی آفس یا فیکٹری میں سو میں سے پچاس لڑکیاں مسلمان بھی ہوں تو اس سے مسلمانوں یا اسلام کا نام کہاں روشن ہوا؟ اس سے قوم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ ایک گھر کی آمدنی ڈبل ہوگئی۔ میاں بیوی جب دونوں کمانے لگے تو عیش ڈبل ہوگیا۔ پہلے ایک کار تھی، اب دو ہوگئے، پہلے ایک فلیٹ تھا اب دو فلیٹ ہوگئے۔ پہلے بچے دال روٹی بھی خوشی سے کھالیتے تھے، اب ماکڈونالڈ، کے ایف سی آرڈر کرنے لگے ہیں۔ بچے جو امریکہ چلے گئے، کیا ان سے قوم کو کوئی فائدہ ہوا؟ کبھی یہ سو ڈالر بھی جیب سے نکالتے ہیں تو قوم پر بہت بڑا احسان کرتے ہیں۔۔یہ زیادہ تر مڈل کلاس کے لوگ ہوتے ہیں، مشورے، اعتراضات اور بکواس زیادہ کرتے ہیں، قوم کے لئے ان کے پاس سوائے تبصروں کے کچھ اور نہیں ہوتا۔ 
اسلام عورت کی نوکری کو بغیر کسی شرعی عذر کے کیوں پسند نہیں کرتا، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے مرد کو باہر کی دنیا کا اور عورت کو خاندان کا حاکم بنایا ہے۔ عورت پر اپنے اور اپنے اطراف کے بچوں اور عورتوں کی تربیت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیروزگاری کتنی عام ہے سب کو پتہ ہے۔ ایک مرد کو اگر نوکری ملتی ہے تو اس کی وجہ سے دس لوگ پلتے ہیں۔ لیکن اگر وہی نوکری عورت لے لے تو ایک گھر کی آمدنی کا گِراف اوپر اٹھتا چلاجاتا ہے، اور ایک مرد کے خاندان کا گراف گِرتا چلاجاتاہے۔ اس طرح ایک عورت کی نوکری کتنے افراد کی روٹی چھین لیتی ہے خود اس کو خبر نہیں۔ مرد مجبوری میں کئی کرائم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کیا ایک گھر کی ترقی سے قوم کی ترقی ممکن ہے؟
اگر شوہر بیمار ہو، مرجائے یا کوئی اور مجبوری ہو تو عورت نوکری کرسکتی ہے۔ لیکن یہ مشکل سے دو فیصد عورتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیا وجہ ہے 98% لڑکیوں کو یہ ذہن نشین کروادیا جاتا ہے کہ ان کا شوہر مرنے ہی والا ہے، یا عورت کو کمائی پر مجبور کردینے والا ہے۔
قوم کی ترقی لڑکیوں کی نوکریوں کی غلامی میں نہیں ہے بلکہ ہماری قوم، ہمارے کلچر اور ہمارے پرسنل کو پھیلانے میں ہے۔ دراصل ہمارے نام نہاد دانشور امریکہ اور یورپ کی لڑکیوں کو دیکھ کر سخت احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں۔ انہیں فر فر انگلش بولنے والیوں میں، مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کام کرنے والیوں میں، مردوں کی محتاج نہ رہنے میں ترقی ہی ترقی نظر آتی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں آخر ہماری لڑکیاں یہ ترقی کیوں نہیں کرتیں۔یہ سوال ایسا ہی ہے جیسے آم کے پیڑ پر جام کیوں نہیں اُگتے؟ ان بے چارے دانشوروں کو یہی پتہ نہیں کہ ہر ترقی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ مغرب کی عورت نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے تب جاکر اسے یہ آزادی ملی ہے۔ کیا ہماری تہذیب یہ قیمت ادا کرسکتی ہے؟ ہماری تہذیب اور ان کی تہذیب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سب سے پہلا فرق یہ ہے کہ سیکس انسان کی بھوک اور پیاس کی طرح ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ اسلام نے اس کو ایک انتہائی قابلِ احترام طریقے سے پورا کرنے کا پورا طریقہ دیا جس میں عورت کی مکمل حفاظت ہے۔ لیکن مغرب نے اس ضرورت کو ویسا ہی پورا کرلینے کی آزادی دے دے جیسے بھوک اور پیاس کو وقتی طور پر پورا کرلینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لوگ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ایک خاندان کو پالنا، بچوں کو پیدا کرنا اور ساری زندگی ایک کھونٹے سے بندھے رہنے کے قائل نہیں۔ عورت بے چاری کرتی بھی کیا، وہ بھی اس سسٹم کا شکار ہوگئی۔ پہلے پہل اسے بھی اس میں لطف نظرآیا، اسے لگا کہ وہ صحیح آزادی حاصل کرچکی ہے، لیکن چند سالوں میں یہ محسوس ہوگیا کہ اب وہ سوائے مردوں کی ہوس پورا کرنے والے کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں۔ ذرا زیادہ عمر ہوجائے تو پھر اس کی طرف کوئی پلٹ کر نہیں دیکھتا، باقی ساری زندگی وہ خود کمانے اور خود کھانے پر مجبور ہوگئی۔ دوسرا فرق ہے کہ مغرب میں پہلے تو کوئی شادی نہیں کرتا، اگر کرتے بھی ہیں تو طلاق کی شرح% 50-70 ہے۔ مغرب میں اب عورت اپنی آزادی کو باقی رکھنے کے لئے اپنے باس کو خوش رکھنے، غیرمردو ں سے بے تکلفی، ترقی کے نام پر کچھ برہنگی، کچھ جسم کی نمائش، پر مجبور ہے۔ کیا ہمارے دانشور یہی ترقی چاہتے ہیں؟  اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہزاروں عورتیں جو نوکریاں کررہی ہیں وہ ساری زنا ہی کررہی ہیں۔ لیکن اتنا تو کرنے پر مجبور ہیں کہ اسلامی لباس کے بغیر،  بال کھولے، کبھی پیٹ اور کبھی پیٹھ دکھانے والی ساڑیاں یا اسکرٹ پہن کر نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ 
اور پھر جتنی ہزاروں لڑکیوں کو ہم اعلیٰ تعلیم کی بھٹّی میں جھونک رہے ہیں، کیا اتنی نوکریاں دستیاب ہیں؟ یہاں فاشسٹوں نے مسلمانوں کے لئے ویسے ہی نوکریاں ختم کردی ہیں۔ہم ہزاروں لڑکیوں کو کن نوکریوں کے لئے تیار کرنا چاہتے ہیں؟ اب جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو بھی آفر دیا جائے وہ بھیک سمجھ کر قبول کرلینے تیار ہیں، ان کی قابلیت، ان کی وفاداری اور محنت کا مکمل استحصال ہورہا ہے، ہم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ذہن بناکر نہ صرف انہیں نوکریوں کی بھیک پر مجبور کررہے ہیں، بلکہ حریص مردوں کو گھر بیٹھے بیوی کا مال کھانے، اس سے نوکری کروانے، پھر بچوں کی، ساس سسر کی اور گھر، پکوان، صفائی وغیرہ جیسی خدمات مفت حاصل کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔معصوم لڑکیاں ایک طرف صحیح عمر میں شادی کے لطف سے محروم ہیں تو دوسری طرف باقی ساری زندگی کے آرام سے محروم ہیں۔ اس سے بہتر ہوتا وہ شادی کی صحیح عمر میں شادی کرکے زندگی کا لطف تو اٹھاتیں۔  
اب آیئے،جہیز کے زاویہ سے بھی بات کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتاکہ آج کی شادیاں، جہیز، بارات اور منگنی وغیرہ لڑکی اور اس کے ماں باپ پر ایک ظلم ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا فائدہ یہ تو ہونا چاہئے تھا کہ ایجوکیٹیڈ لڑکیاں ظلم اور ناانصافی کے خلاف اٹھتیں، لیکن آج کی ایجوکیشن کا مقصدناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ڈگریاں حاصل کرکے نوکریوں کے قابل بنانا ہے، پھر ایسی ایجوکیش کا فائدہ ہی کیا جس میں لڑکی کو جتنا پڑھایا جائے اس کے ماں باپ پر وہ اتنا زیادہ بوجھ بنتی جائے؟ اس تعلیم سے قوم کو کیا فائدہ ہوا؟ اس سے قوم کی ترقی کہاں ہوئی؟ 
حل کیا ہے؟ صحیح وقت پر شادی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ زندگی میں صحیح وقت پر صحیح پیار مل جائے، جذبات سرد ہونے سے پہلے زندگی شروع ہوجائے تو ایسا ہی ہے جیسے بھوک میں کسی انسان کو سوکھی روٹی اور دال بھی مزا دیتی ہے۔ لیکن اگر آدمی کا فالتو چیزوں سے پیٹ بھر جائے اور بعد میں اس کے سامنے بریانی بھی پیش کردی جائے تو وہ اس میں کئی خامیاں نکالتا ہے۔ اسی طرح اگر صحیح وقت پر شادی ہوجائے تو لڑکا یا لڑکی نہ خوبصورتی دیکھتے ہیں نہ پیسہ، ایک دوسرے کی بانہیں ان کے لئے بہت بڑا سہارا ہیں۔ اس کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد پہلے ان کی شادی کردی جائے تاکہ نہ ان کے ذہن جنسی جذبات  میں بہکیں، اور نہ کوئی دوسرا انہیں بہکانے کی کوشش کرے۔۔ شادی مکمل نبی ﷺ کے طریقے پر ہو، یعنی نکاح گھر پر یا مسجد میں ہو، مہمانوں کو چائے یا شربت پیش کیا جائے، نقد مہر ادا کیا جائے، ولیمہ نبی ﷺ اور علی ؓ کے ولیموں کی طرح ایک بکرے پر ہو، اور جو پیسہ بچ جائے، شادی کے بعد ان کی ایجوکیشن اور کیرئر پر خرچ کیا جائے۔ بچے فوری پیدا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اسلام میں نہ بچے  پیدا کرنے سے روکا ہے اور نہ پلاننگ کرنے سے۔ دو چار سال بچے تاخیر سے پیدا ہوں تو کوئی قیامت نہیں آجائیگی۔ دونوں زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہوئے تعلیم بھی مکمل کرینگے اور اپنے اپنے پروفیشن میں کمانے بھی لگیں گے۔ جو پیسہ دکھاوے کی دعوتوں، جہیز اورجوڑے کی رقم میں ضائع کرکے تیار دلہوں کو خریدتے ہیں، اور بعد میں طلاقوں اور جھگڑوں میں زندگی گزارتے ہیں، اس سے نجات مل جائیگی۔ معاشرہ ایک صحیح بنیادوں پر چل پڑے گا۔ ....

💦💦💦💦💦💦💦

دماغ کو ہر عمر میں جوان رکھنے میں مدد دینے والی آسان عادات

   جون 29, 2021 یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جسم چاہے جتنا بھی مضبوط ہو اگر دماغی طور پر کمزور ہو تو دنیا میں آگے بڑھنے یا روشن مستقبل کا تصور ت...